چائلڈ لیبر: بچوں کا بدترین استحصال
یہ لاکھوں بچے جو چائلڈ لیبر کہلاتے ہیں، سڑکوں ، دکانوں سے لے کر گھروں تک میں اذیت بھری زندگی بسر کر رہے ہیں۔
یہ لاکھوں بچے جو چائلڈ لیبر کہلاتے ہیں، سڑکوں ، دکانوں سے لے کر گھروں تک میں اذیت بھری زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کون پاکستان برائے فروخت کا بورڈ اس حکومت اور بیورو کریسی کے گلوں سے اتارے گا۔
مزدور اگراپنے جمودکی زنجیروں کو توڑ کر نکل پڑا تو پھر پولیس تو کیا، پوری ریاست کا جبربھی اسے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکے گا۔
اتھارٹی کے قوانین کے مطابق ان زونز میں پاکستان کے لیبر قوانین مثلاًصنعتی تعلقاتی آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا، اس لئے یہاں پر کسی قسم کے حقوق کا سوال کرنا بھی غیر قانونی ہے۔
جن علاقوں سے یہ وسائل نکالے جار ہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی نہ صرف ان سے محروم ہے بلکہ بھوک اور افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہیں۔
طبقاتی سماج میں ’’قانون‘‘ صرف غریبوں کے لئے ہوتا ہے جسے طاقتور چیر کر نکل جاتے ہیں۔ سرمائے کے اس نظام میں مزدور کا لہو بہت سستا ہے!
ہڑتالیں محنت کشوں کو باور کرواتی ہیں کہ ریاست ان کی دشمن ہے اور ریاست کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔
محنت کشوں کی اکثریت غربت اوربیروزگاری سے تنگ آ کر کوئلے کی کانوں کی شکل میں بنے موت کے کنوؤں میں جان گنوانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات اور ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ محکوم عوام کی نجات کے لیے اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
تمام تر غلطیوں اور خامیوں کے باوجود نوجوان ڈرائیورز کی ہمت اور جرات کو داد دینا ہوگی، جنہوں نے کہنہ مشق اور ہیوی ویٹ ریلوے مزدوررہنماﺅں کو”ہڑتال کی جاسکتی ہے“ کا سبق سکھایا ہے۔